• + (92) 334 3730171

غایتِ سِیرَت

غایتِ سِیرَت

(محمد اسد اللہ بلندوی،  ریسرچ فیلو ادارہ فکر جدید)

عَرَبِی زبان میں ثلاثی مجَرِّد کے باب سے مشتق اسم ہے.جس کے معنی خُو،خصلت،ذاتی وصف کے علاوہ باکردار کے بھی ہیں.عام طور پر جب بھی سیرت کا لفظ بولا جاتا ہے.تو فوراً آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی سیرت اور شِعار کی طرف ذہن منتقل ہوجاتا ہے.لیکن عربی زبان اور اس لفظ کے اعتبار سے اس اطلاق ہر شخص کے احوال و کردار پر ہوتا ہے.عمومی طور پر، اس سے علماء وقت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے. جیسے حدیث کا لفظ عمومی طور پر آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی گفت گو کو کہا جاتا ہے لیکن عرب اس لفظ کو “جدید “اور “عام گفت گو “کے لیے (جیسے حدیث متلعثم) استعمال ہوتا ہے.لیکن جب بھی مطلقاً سیرت بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہی مراد ہوتی ہے. امام محمد غرناطی اپنی کتاب ” النور المبین ” میں وصیت کے طور پر یہ درج کرتے ہیں کہ سیرت کا مطالعہ کرنا نہایت ضروری ہے.  جس طرح احادیث کو پڑھا جاتا ہے اسی کے ساتھ سیرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھا جائے.  اس کے ساتھ سلف کے واقعات کی معرفت اور ان کو احوال کو جاننا بھی ضرروی ہے.  سلف کے احوال کو جاننے سے ہمیں کیا حاصل ہوگا.سیرت پڑھنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ بڑے لوگوں کے کردار کا پتہ چلتا ہے اور بُرے لوگوں کے افعال کا حال معلوم ہوتا ہے تاکہ اُن پر عمل کرسکے اور اِن سے بچ سکے۔

علماء ،فصحاء کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے انسان ایک تو علماء کے بارے میں جانتا ہے دوسرا اس کے لیے عملی راستہ ہموار ہوتا ہے.جس پر وہ عمل کرنے سے سستی اور کاہلی کا مظاہرہ کرتا ہے. علامہ سخاوی نے “الاعلان بالتوریخ” میں لکھا ہے جو شخص علماء کے حالات نہیں جانتا وہ بڑی غفلت میں ہے اور بقول علامہ سخاوی اس شخص کا یہ عیب ہے کہ وہ علماء سے ناواقفیت کا اظہار کرتا ہے۔

انسان پچھلے لوگوں کے واقعات پڑھ کر اس وقت کی سوچ و فکر کا اندازہ اور احوال کا ادراک کر سکتا ہے کہ فلاں کی سوچ اور فلاں کے حالات کن اسباب پر دلالت کرتے ہیں اور ان کے نتائج کیا برآمد ہوئے؟. جس سے انسان اپنی ذات کے فائدہ کے ساتھ ایک خاندان اور معاشرے کی پختگی اور مثبت سوچ کا سبب بنتا ہے. بشرط کہ قاری احوال کو اچھی طرح پرکھنے اور صرفِ زمن کے واقعات سے خبردار ہو. مشکل حالات میں زندگی کیسے گزارنی ہے.اطمینان و تسکین کے حالات  میں اپنے آپ کو کس طرح رکھنا ہے۔

یہ تمام غایات ہمیں سیر سلف سے معلوم ہوتا ہے.  یہ ایک رابطہ و تسلسل ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا ہے.  اگر انہیں چھوڑ کر کسی اور راہ و سیر میں زندگی کی فوز و فلاح کو مضمر دیکھنا ہے تو یہ نا سلجھنے والی ڈوری ہے کیونکہ انسان کے لیے وہی بہتر ہے جو اللہ نے طے کیا اور وحی کے ذریعہ ہم تک پہنچا. محض عقل و تجربات کی روشنی اندھیروں کی طرف ہی لے جاتی ہ

Leave Your Comments

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

کاپی رائٹس 2024 ادارہ فکر جدید۔ جملہ حقوق محفوظ ہیں.